خواتین میں ہیجان شہوت: سگمنڈ فرائڈ کے تخلیق کردہ غلط مفروضے جو آج بھی ہزاروں خواتین کو متاثر کر رہے ہیں
جس سال معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے اپنا سپیشل ریلیٹویٹی کا نظریہ شائع کیا تھا اسی برس سگمنڈ فرائڈ نے خواتین میں ہیجان و شہوت کے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا تھا۔
جہاں ایک جانب جدید طبیعات (فزکس) کے بانی نے کائنات کے متعلق ہماری سمجھ و سوچ میں انقلاب برپا کیا وہی نفسیاتی تجزیے (سائیکوانالیسز) کے بانی نے انسان کے جسمانی تعلق سے متعلق ایک طوفان برپا کیا۔
ان کی تحقیق ’جنسیت کے نظریہ پر تین مضامین‘ سنہ 1905 میں شائع ہوئی اور ان پر سنہ 1925 میں اس کے آخری ایڈیشن تک کئی بار نظر ثانی کی گئی۔ اپنی تحقیق میں انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک بالغ اور صحت مند عورت کے لیے جنسی لذت اور ہیجان شہوت کا مرکز اندام نہانی ہوتا ہے۔
وہ جانتے تھے کہ بہت سی خواتین نے جنسی ہیجان اندام نہانی میں موجود ایک انتہائی حساس چھوٹے سے عضو سے حاصل کیا تھا جسے کلائیٹورس کہا جاتا ہے۔
انیسویں صدی میں، مختلف ماہرین نے دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ خواتین کی جنسیت میں کلائیٹورس کے کردار پر بحث کی تھی کیونکہ بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ خواتین کو جبری مشت زنی کرنے یا جنسی عمل کو یکسر مسترد کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
فرائڈ کے نزدیک کلائیٹورس سے حاصل کردہ ہیجان شہوت نامکمل، بچگانہ اور نفسیاتی مسائل کی نشانی تھے۔
مگر ایسا کیوں؟
وہ وضاحت کرتے ہیں کہ مردوں میں بچپن سے ہی عضو تناسل کو شہوت کا مرکز سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس خواتین میں جنسی شہوت کے لیے پہلے کلائیٹورس تصور ہوتا ہے مگر جس عمل سے ایک لڑکی عورت بنتی ہے، اس کے لیے انھیں اپنا شہوت کا مرکز اندام نہانی کو منتقل کرنا ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس منتقلی میں اکثر وقت لگتا ہے، اس دوران ایک نوجوان عورت جنسی طور پر سن یا کچھ محسوس نہیں کرتی ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’شہوت کے مرکز کی اس تبدیلی کے دوران خواتین میں ہسٹیریا جیسے مسائل بننے کا رحجان رہتا ہے۔‘
اگر ایک عورت اپنی جنسی شہوت کی حساسیت کا مرکز اندام نہانی کو نہیں بناتی تو اسے جنسی طور پر سن یا کچھ محسوس نہ کرنے والی کا نام دیا جاتا ہے۔
جماع کے دوران خواتین میں ہیجان شہوت کی عدم موجودگی کے طور پر بیان کی گئی بے لذتی کی تشخیص، عام خواتین کے ہم جنس پرست ہونے کا معیار بن گئی۔
0 Comments