ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والی – چند حیران کن وجوہات..

..ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والی – چند حیران کن وجوہات

ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والی – چند حیران کن وجوہات


دل کے دورے کا سبب بننے والے کچھ عناصر ہر ایک کو معلوم ہوتے ہیں یعنی ایک عام فرد کو بھی اندازہ ہے کہ موٹاپا، ذیابیطس اور بلڈ پریشر اس جان لیوا دورے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ اسی طرح تمباکو نوشی اور سست طرز زندگی بھی بڑے عناصر میں سے ایک ہیں مگر بہت کم افراد ان چندغیرمعمولی وجوہات سے واقف ہوتے ہیں جو آپ کے دل کے لیے خطرہ کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ تو اپنے تحفظ اور معلومات میں اضافے کے لیے ان حیران کن وجوہات کو جاننا ضروری ہے جو کسی بھی موقع پر زندگی بچانے کا کام آسکتا ہے۔

نیند کی کمی

اگر نیند کی کمی کو معمول بنالیا جائے تو تھکاوٹ کے ساتھ چڑچڑے پن کا سامنا ہوتا ہے مگر یہ دل کے دورے کا خطرہ بھی بڑھاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ چھ گھنٹے سے کم سونے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ دیگر افراد کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نیند کی کمی بلڈ پریشر میں اضافہ کرتی ہے جو کہ دل کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔

آدھے سر کا درد

جن لوگوں کا اکثر سر کے اس درد کا سامنا ہوتا ہے ان میں زندگی میں کسی وقت دل کے دورے کا خطرہ دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر ایسا درد جس میں عجیب آوازیں سنائی دیں یا کچھ عجیب سے محسوس ہو، یہ دل کے مسائل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

ہوائی آلودگی

ہارٹ اٹیک اس وقت بہت عام ہوجاتے ہیں جب فضائی آلودگی کی شرح بہت زیادہ ہو، جو لوگ آلودہ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہوتے ہیں ان میں شریانوں میں خون جمنے یا لوتھڑے بننے اور امراض قلب کا امکان زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح ٹریفک جام میں پھنسے رہنا بھی خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ گاڑیوں کے دھویں کے ساتھ غصہ یا ذہنی جھنجھلاہٹ ہارٹ اٹیک کا باعث بن سکتی ہے۔

منفی یا مثبت جذبات کا غلبہ

غصہ، دکھ اور تناؤ تو دل کے مسائل کا باعث بنتے ہیں یہ تو سب کو معلوم ہے مگر خوشی کے لمحات بھی کبھی کبھار ہارٹ اٹیک کا باعث بن سکتے ہیں، جیسے کسی شادی یا اولاد کے بچوں کی پیدائش سے ہونے والی خوشی بھی جان لیوا ہوسکتی ہے۔

سخت جسمانی محنت

ویسے تو جسمانی ورزش طویل المعیاد بنیادوں پر دل کو تحفظ دیتی ہے مگر بہت زیادہ کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، لگ بھگ چھ فیصد ہارٹ اٹیک شدید جسمانی محنت کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments